25-Aug-2023 لیکھنی کی کہانی -
تقسیم
شام کا وقت تھا سورج
غروب ہونے میں بمشکل آدھا گھنٹہ باقی رہتا ہوگا۔ گاؤں کے کسان تھکے ہارے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ دریا سے گاؤں
کی طرف آنے والی سڑک پر کسان اپنے مویشیوں
کے ساتھ سر پر مختلف اشیاء کی گھٹڑیاں
رکھے اپنے گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ جانوروں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں گھر واپسی کا
اعلان کر رہی تھیں ۔گھر میں موجود خواتین نے رات کے بھوجن کی تیاری شروع کر رکھی
تھی۔ امی نے اوپلوں کی آگ پر ہنڈیا چڑھا رکھی تھی جب کہ تندور میں روٹیاں لگانے کی
خاطر لکڑیاں ڈال کر ان کو آگ لگا دی گئی تھی۔ ابا جان جانوروں کوبھوسہ ملا چارہ ڈال رہے تھے۔ اچانک محمد شفیع!!!!!!!!!!
محمد شفیع!!!!!!!!!!! حویلی کے باہر سے آواز گونجی کوئی میرے
والد محترم کو بلا رہا تھا۔ اس کی آواز سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جلدی میں
ہے یا پھر کسی پریشانی میں ہے ۔ گاؤں کے
اکثر لوگ میرے والد صاحب کے پاس اپنے مسائل کے حل کے لئے آیا کرتے تھے۔ کسی کو
مشورہ درکار ہوتا یا کوئی اور مسئلہ ہوتا تو بلا جھجھک میرے والد محترم کے پاس چلے
آتے تھے ۔ کیونکہ اس گاؤں میں میرے والد
صاحب وہ واحد شخص تھے جنہوں نے اعلیٰ
تعلیم حاصل کر رکھی تھی۔ جبکہ زمیندار ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری مکتب میں مدرس بھی
تھے۔ لوگ ان کی عزت کیا کرتے تھے۔ اور ان
کی کہی گئی ہر بات کو دل سے تسلیم کیا کرتے تھے۔جب آواز مسلسل آنےلگی تو مجھے بڑے
بھائی نے جو کہ میرے ساتھ چھپن چھپائی
کھیل رہا تھا باہر جا کر دیکھنے کا کہا۔میری عمر اس وقت آٹھ سال ہوگی جب کہ میرے
بڑے بھائی مجھ سے عمر میں پانچ سال بڑے تھے۔ میں احساس ناگواری کے ساتھ باہر
دیکھنے چلا گیا۔باہر، چچا ! رسولا
، کھڑا تھا جو اچھا خاصا پریشان دکھائی دے رہا تھا اس کے چہرے کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ اداسی صاف دکھائی دے
رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی فورا پوچھا ماشٹر صاحب گھر پر ہیں ۔میں ان کی ایسی حالت
دیکھ کر سٹپٹا گیا۔ دل میں سوچنے لگا شاید کوئی بری خبر ہے جس نے چاچے کو پریشان
کر رکھا ہے۔ میں نے پوچھا چچا رسولا خیریت تو ہے ؟ کہنے لگا بیٹا خیریت ہی
تو نہیں ہے ،جلدی سے اپنے ابا کو بلائیں۔ آج عثمان مسلّی فوت ہو گیا ہے۔ اس کی لاش اکیلی گھر
میں پڑی ہے اس کےکفن دفن کا انتظام کرنا
ہے۔ چچا عثمان کی اچانک وفات کی خبر سن کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسا کہ کسی نے میرے
دماغ پر انتہائی زور سے چوٹ لگائی ہو دل
دھک سے رہ گیا ۔میں حیران ہو کر چاچے رسولے کا منہ تکنےلگا۔ اسی اثناءمیں چاچے
رسولے کی ایک بار پھر آواز سنائی دی بیٹاجلدی سے ابا کو بلا کرلاؤ بہت دیر ہو رہی
ہے۔ میرے بچگانہ ذہن میں چچا عثمان کی
شکل فلم کی صورت چلنے لگی ۔ چچا عثمان
بنیادی طور پر ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے
ان کے والد کا نام رام پرکاش تھا جوکہ پیشے کے اعتبا ر سے ایک کسان تھا۔
گاؤں میں
تقسیم برصغیر سے پہلےبہت ساری قومیں آباد تھیں جن میں پھلیلی ، درگوچے،
کیہل بختیاری ، گوپانگ ، ملاح ، بھٹی وغیرہ تھے۔ ان کے علاوہ دو تین ہندو گھرانے
بھی آباد تھے جو کہ تقسیم برصغیر کے وقت ہندوستان چلے گئے تھے۔ گاؤں کے ہندو
گھرانے اور مسلم گھرانے ایک ساتھ رہا کرتے
تھے۔ آپس میں بھائی چارہ تھا دکھ درد میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوتے تھے۔ مذہب
ذات پات کی کوئی قید نہ تھی۔ لوگ مل بانٹ کر کھایا کرتے تھے۔ ریاست بہاول پور کے
سرحدی علاقے میں دریائے چناب کے کنارے پر ایک گاؤں آباد تھا جس کا نام کچی لعل خاں
تھا۔ گاؤں کے اردگرد گھنا جنگل تھا۔ جس
میں ہر طرح کے جنگلی جانور بھی پائے جاتے تھے۔ سال میں ایک دفعہ ساون بھادوں میں سیلاب آتا تھا جو کسانوں کی فصلیں تباہ
کرنے کے بعد واپس لوٹ جاتا تھا۔ مگر چونکہ یہاں کے باسی اس کے عادی ہوچکے تھے لہذا
سیلا ب کے آنے سے پہلے اپنے تمام حفاظتی انتظامات کر لیتے تھے۔ اور جو جس کے پاس
ہوتا سب آپس میں بانٹ لیا کرتے تھے۔
چچا عثمان بھی بچپن میں ہندو تھا ماں باپ نے اس کا نام آکاش رکھا تھا ۔ آکاش کو گاؤں کی ایک لڑکی بھاگاں ایسے بھائی
کہ اسے دل دے بیٹھا۔کہتے ہیں کہ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔رفتہ رفتہ بھاگاں بھی آکاش کو پسند کرنے لگی تھی۔اور پھر
دونوں کے میل میلاپوں کے سلسلے چل نکلے ۔دونوں دریائے چناب کے کنارے جنگل میں
دنیا سے نظریں چرا کر ملنے جایا کرتے تھے
جہاں بیٹھ کر پیار محبت کی پینگیں بڑھایا
کرتے تھے ۔آہستہ آہستہ محبت کی حدیں پار کرتے کرتے ۔ دو قالب یک جان کے مصداق بن
چکے تھے ۔دن گزر رہے تھے اچھے دنوں کی امید میں تھے اچھے وقت کا انتظار کر رہے تھے کہ کب اچھا وقت آئے اور آکاش اپنے باپو کے
ذریعے سے بھاگاں کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگے۔ مگر انہیں اس وقت انتہائی اذیت کا سامنا کرنا پڑا جب
برصغیر کی تقسیم کا اعلان ہوا ۔ دو الگ وطن بنا دیے گئے ہندوؤں کے لئے ہندوستان
اور مسلمانوں کے لئے پاکستان۔ یہ سب اتنا جلدی ہوا کہ کانوں کان کسی کو خبر تک نہ
ہوئی۔ بالآخر تقسیم کے ہاتھوں مجبور ہو کر لوگوں نے ہجر ت شروع کر دی یہاں کے ہندو گھرانے بھاگم بھاگ ہندوستان جانے
لگے اور ہندوستان سے مسلم قبائل پاکستان آنے لگے۔ چچا عثمان کے خاندان والوں نے بھی مجبور ہو کر رخت سفر باندھا اور ہندوستان جانے کی تیاری کرنے
لگے مگر آکاش اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور سوچ بچار میں تھا۔ زندگی میں انسان کو
ایسے حالات و واقعات کا اچانک سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جن کے بارے میں کبھی گمان تک
بھی نہیں ہوتا ۔مگر ایسے حالات میں کامیاب وہی ہوتا ہے جو مضبوط قوت ارادی کا مالک
ہو ہمت مند اور باحوصلہ ہو اور صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ انہی دنوں ایک
رات آکاش کے باپو نے اسے کہا بیٹے اپنا سارا سامان باندھ لو بستی والوں کو الوداع
کہہ آؤ صبح سورج نکلنے سے پہلے ہم لوگ بیل گاڑیوں پر عازم سفر ہوں گے۔ چونکہ ریاست
بہاول پور کے قریب ہندوستان کی ریاست بیکنیر پڑتی ہے لہذا پہلے ہم وہا ں جائیں گے
اس کے بعد پھر نصیب کا لکھا دیکھیں گے۔ یہ
خبر سنتے ہیں آکاش کی سٹی گم ہوگئی ۔ انتہائی اداس ہو گیا۔باپو نے جب بیٹے کو اداس
دیکھا تو وجہ پوچھی ۔ پہلے تو آکاش نے ڈر
کے مارے خاموشی بنائے رکھی مگر جب پانی سر سے اوپر گزرنے لگا تو مرتا کیا نہ کرتا
کے مصداق سب سچ بتانے کا تہیہ کر لیا۔ جب
سارے گھر والے تیاریوں میں مصروف تھے تو آکاش نے موقع پا کر اپنے باپ سے بات کرنے
کی ٹھانی اور پاس جا کر ڈرتے جھجکتے منہ
جھکا کر کہنے لگا۔
باپو ! چچا شیدا
بھٹی ہے نا ں! اس کی بیٹی بھاگا ں سے میں بہت پیار کرتا ہوں ۔ اسے میں نے زبان دے رکھی ہے کہ اس کو چھوڑ کر کہیں
نہیں جاؤں گا۔ باپو میں مر تو جاؤں گا مگر بھاگاں کو نہیں چھوڑ سکتا۔ باپو بھگوان
کے لئے مجھے اپنے ساتھ مت لے جائیں مجھے یہیں چھوڑ جائیں میں یہیں رہ لوں گا۔ آکاش
روتے ہوئے باپو کے قدموں میں گر گیا۔ چچا سندر لال جو ساتھ ہی سامان باندھ رہا اور ا
نتہائی غیر محسوس طریقے سے یہ ساری رام کہانی سن رہا تھا۔ جب اس نے یہ ساری کتھا
سنی تو اس نے غصے سے اپنے دانت بھینچ لیئے اور کہنے لگا کل کا چھورا ہے ابھی ساتھ نہیں جارہا یہاں سارے
مُسلے ہوں گے اسے مارڈالیں گے کسی صورت اسے ہم یہاں نہیں رہنے دیں گے۔ اتنے میں
آکاش کی ماں سیتا دیوی بھی وہاں آ
دھمکی ساری رام کہانی سننے کے بعد وہ بھی بول
اٹھی، نہ میرا لعل نہ میں ہر گز تمھیں
یہاں چھوڑ کر نہ جاؤں ۔ تمھیں جرور جانا ہوگا۔ گھر میں پہلے ہی اداسی اور بے چینی
کا عالم تھا۔ آکاش کی بات سن کر پورا خاندان اور پریشان ہوگیا۔ گھاس پھوس سے بنے
چھپر کے اندر بیٹھادادا جو کہ یہ رام کہانی سن چکا تھا ابھی تک حقے کے لمبے لمبے کش لینے میں مصروف تھا
تھوڑی دیر بعد آہستہ سے چھپر سے نکل کر باہر آیا اور کھانستے ہوئے کپکپاتی آواز میں بول اٹھا !!!!!!!! ناں شیندا ناں!! تجھے تو ہم ساتھ لے ہی جاویں۔
آکاش جس کی اب تک ہچکی بندھ چکی تھی۔ ایک طرف محبت بھاگاں اور دوسرے طرف ماں باپ
،خاندان اور ہجرت آڑے آچکی تھی۔سیانے کہتے
ہیں دل ہمیشہ اپنی منواتا ہے۔ جس راہ پر کانٹے ہوں اسی پر چلنے کا کہتا ہے بندے کو
ذلیل ہوتا دیکھ کر تماشا دیکھتا رہتا ہے۔ گھر میں آکاش کے فیصلے پر بحث چھڑ چکی
تھی تمام لوگ آکاش کو ساتھ لے جانے پر بضد تھے۔ مگر آکاش کے پاؤں میں بھاگاں کی
محبت نے بیڑیا ں ڈال رکھی تھیں۔ زمانے جہان کی باتیں مثالیں سنائی گئیں ۔ لوگوں کے
قصے سنائے گئے عشق ، محبت کو فضول خیال کہا گیا۔ پیار کو جھوٹ اور مکر و فریب کا نام دیا گیا۔ الغرض
جتنے منہ اتنی باتیں کی گئیں۔
مگر آکاش نے اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔ مار کے پھینک جاؤ یا
زندہ رہنے دو میں بھاگاں کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا۔ ساری رات اسی مخمصے میں
گزار دی گئی پوپھوٹنے لگی گاؤں کے اکلوتے جھونپڑی نما مندر میں گھنٹیاں بجنے لگیں
۔ دور سے مسجد سے بھی آذان کی آواز سنائے دینے لگی۔ دریا کے کنارے جنگلی جانوروں
کی آوازیں پیام زندگی دے رہی تھیں۔ یہ اس
بات کا اعلان تھا کہ قافلے کو اب روانہ ہو جانا چاہیے۔ بیل گاڑیوں پر سامان رات کو
ہی باندھ دیا گیا تھا۔ لوگوں سے حساب کتاب کر لیا گیا تھا ۔ لین دین سب شام کو ہی
پورا کر لیا گیا تھا۔ آکاش کے باپو نے اپنے باب دادا کی زمین ایک مسلمان دوست
رمضان کو حبہ کر دی تھی۔
آخری بار سارے اہل خانہ آکاش کو منانے کی ناکام کوشش کرنے لگے ۔ مگر آکاش اپنی بات پر قائم تھا۔ اچانک آکاش کے باپو نے حیران کن فیصلے کے ساتھ سب کو چونکا دیا۔ بھائیو بہنو۔ آپ سارے اپنے سفر پر روانہ ہو جاؤ میں آکاش کے ساتھ یہیں رہ جاتا ہوں آخر ایک دن اسے بھی منا کر ساتھ لے آؤں گا۔ تمام لوگ ان کے اس فیصلے پر سٹپٹا گئے یک نہ شد دو شد ۔ وقت تیزی سے گزر رہا تھا ۔ سرحدی علاقوں سے لوگوں کے قتل و غارت کی خبریں آ رہی تھیں ۔ کافی سوچ وبچار کے بعد بالآخر سارا قافلہ روانہ ہوگیا سوائے دو لوگوں کے آکاش اور اس کی باپو کے ۔ روتی آنکھوں ،سسکیوں، آہوں کے ساتھ ایک دوسرے کو الوداع کیا گیا۔ سب لوگ عازم سفر ہوئے اور آکاش اور اس کا باپو اپنے مٹی سے بنے گھر میں رہ گئے۔
دن چڑھتے ہی رمضان اپنے رشتہ داروں کے ساتھ آکاش کے گھر پہنچا ۔ مگر اس بار اس کے تیور ٹھیک نہ تھے۔ اس کے چہرے پر دوستی کی جگہ نفرت کے آثار تھے ۔ آتے ہی اس نے گھر خالی کرنے کا کہا ۔ مگر رام پرکاش اس بات پر اڑا تھا چونکہ وہ ابھی تک ہندوستان کی طرف عازم سفر نہیں ہوا لہذا ابھی یہ گھر اسی کی ملکیت ہے اور اسے کوئی یہاں سے نہیں نکا ل سکتا ۔ بات بستی میں پھیلی ، پھیلتے پھیلتے گاؤں کے نمبردار سردار خان محمد خان کے پاس جا پہنچی ۔ نمبر دار نے اپنے نوکر کے ہاتھ دونوں کو بلا بھیجا اور شام کوگاؤں کی چوپال میں اکٹھ بلایا ۔ نوکروں نے پوری بستی میں منادی کر دی آج شام کو پوری بستی کے لوگ سردار صاحب کی چوپال میں اکٹھے ہوں گے ایک ضروری پنچائیت ہو گی۔ شام کو بستی کے تمام لوگ چوپال میں اکٹھے ہوئے ۔ رام پرکاش اور اس کا بیٹا آکاش بھی پہنچ گئے۔ جبکہ شیدا بھٹی بھی اپنی برادری کے ساتھ چوپال میں موجود تھا الغرض سردار کے حکم کے مطابق ساری قومیں برادریوں کے بڑے، بوڑھے ،بچے ،جوان ،سب چوپال میں اکٹھے ہو چکے تھے۔
رام پرکاش نے بات شروع کی۔ حجور جیسا کہ سب گاؤں کے باسی جانتے ہیں کہ میں اور میرا خاندان ہندوستان کی جانب جارہے تھے تو میں نے اپنی ساری جائیداد اور زمین اپنے دوست رمضان کو حبہ کر دی تھی۔ مگر چونکہ میں اور میرا بیٹا آکاش ابھی تک نہیں گئے اور ہم نے اپنا جانے کا ارادہ فی الحال کچھ عرصے کے لئے ملتوی کر دیا ہے لہذا ہم اپنے گھر میں خود رہیں گے۔ اگرچہ رمضان میرا دوست ہے مگر اس نے نمک حرامی کی حد کردی ہے۔ اور آج صبح سویرے مجھے میرے گھر سے نکالنے کے لئے آدھمکا۔نمبر دار نے رمضان کو بات کا موقع دینے سے پہلے ایک بار پھر رام پرکاش سے سوال کیا کہ آخر تمام لوگوں کے جانے کے باوجود آپ دو لوگ کیوں نہیں گئے۔ بستی کے لوگ انتہائی گہرے انہماک کے ساتھ را م پرکاش اور نمبر دار کی باتیں سننے میں مصروف تھے۔رام پرکاش نے دل میں سوچا یہی بہتر وقت ہے سچ بات بتا دی جائے ممکن ہے کوئی اچھا حل مل جائے ۔ یا تو نمبردار انہیں بھاگاں کا رشتہ دلوا دے گا یا پھر اس کے بیٹے کو گاؤں چھوڑکر جانے پر راضی کر لے گا۔
رام پرکا ش نے گلا صاف کرتے ہوئے روہانسے انداز میں اپنی بات شروع
کی سرکار جیسا کہ آپ جانتے ہیں ہم لوگ صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ رہ رہے ہیں
ہمارا جینا مرنا ایک ساتھ رہا ہے۔ ہم دکھ سکھ میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹاتے آئے ہیں
۔ جب مسلمانوں پر مصیبت آئی ہم ہندوؤں نے ساتھ دیااور جب ہم ہندوؤں پر کوئی وقت
آیا آپ مسلمانوں نے ہمارے سر پر ہاتھ رکھا۔ جناب ہم نے تو سات جنم ساتھ رہنے کا سوچ رکھا تھا۔ جدا ہونے
کا خیال تک نہیں آتا۔ تھا بھگوان نے ہمیں یہ بستی چھوڑنے کا آدیش دیا۔ ہم تمام لوگ
جانے کی تیاری مکمل کر چکے تھے رخت سفر بھی باندھا جا چکا تھا۔ مگر میرے بیٹے آکاش
نے فیصلہ کر لیا کہ وہ یہ گاؤں چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ تمام گھر والوں نے بہتیرا
سمجھایا مگر اس نے ایک نہ سنی ۔ بالآخر جب ہم
نے وجہ پوچھی تو اس نے مجھے حیران کر ڈالا !!!!!! نمبر دار صاحب اگر بستی والے اور آپ لوگ ناراض نہ ہوں تو اپنے ناہنجار بیٹے کے نہ جانے کی وجہ بتاتا ہوں۔ نمبردار نے ہاتھ کے اشارے سے بات جاری رکھنے کا کہا ۔ تو رام پرکاش نے کہا میرا بیٹا آکاش شیدا بھٹی کی بیٹی بھاگاں مائی سے محبت کرتا ہے۔ جس سے اس نے عہد پیمان باندھ رکھے ہیں ۔ لہذا میں اپنے بیٹے کو اس گاؤں میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ میں آپ سے ہاتھ جو ڑ کر بنتی کرتا ہوں میرے بیٹے کو سمجھائیں ہم ہندو ہیں جبکہ شیدا بھٹی مسلمان ہے۔ ہمارے درمیان تعلق تو رہ سکتا ہے مگر رشتے ناطے نہیں ہو سکتے۔ رام پرکاش کی اس بات سے محفل میں اچانک خاموشی چھا گئی ۔ کچھ لوگوں کے چہرے لٹک گئے جبکہ محفل میں موجود شیدا بھٹی رام پرکاش کی یہ بات سن کر حیران و پریشان گہری سوچ میں پڑ گیا۔ نمبردار نے وضاحت کرتے ہوئے کہا رام پرکاش جیسا کہ تم نے کہا کہ ہندو مسلم آپس میں شادی نہیں کر سکتے لہذا یہ رشتہ تو ناممکن ہے البتہ میں آپ کے بیٹےکو سمجھاتا ہوں کہ وہ آپ کے ساتھ بستی چھوڑ کر ہندوستان چلا جائے۔ اتنے میں آکاش زور زور سے رونے لگا اور اپنا سر نمبر دار کے پاؤں میں جا کر رکھ دیا۔ تمام لوگ حیرت سے تکے جارہے تھے۔ محفل میں وہ بات کی جارہی تھی جس کا وہم و گمان تک نہ تھا۔ ہندو مسلم صدیوں سے ساتھ رہتے چلے آ رہے تھے ۔ مگر کبھی اس طرح کا واقعہ نہیں ہوا تھا کہ کسی مسلم لڑکی نے کسی ہندو لڑکے سے شادی کی ہو۔ البتہ کافی ساری ہندولڑکیاں مسلم لڑکوں سے شادیاں کر چکی تھیں۔ نمبر دار نے یہ سوچتے ہوئے کہ شیدا بھٹی اپنی زبان سے خود انکار کردے گا کی طرف دیکھا اور پوچھا کیوں بھئی شیدے تمھارا کیا کہنا ہے اس بارے میں ۔ شیدا بھٹی جو کہ گہری سوچوں میں غرق تھا۔ سوچوں کے سمندر سے واپس لوٹا اور نمبر دار سے کہنے لگا دیکھیں نمبردارصاحب آپ جانتے ہیں کہ میں اور میرا گھرانہ مسلمان ہے جبکہ ہمارے مذہب میں اس بات کی اجازت نہیں کہ کوئی مسلمان لڑکی کسی ہندو لڑکے سے شادی کرے ۔ ہاں البتہ میں نے ایک بات سوچی ہے کہ اگر آکاش اور اس کا باپو مسلمان ہو جائیں تو پھر میں اپنی بیٹی آکاش کے ساتھ بیاہ سکتاہوں۔شیدے کی اس بات پر نمبر دار کے ساتھ ساتھ پوری بستی کے لوگ حیران ہو گئے۔ نمبردار نے تسلی کے لئے ایک بار پھر شیدے سے پوچھا اور شیدے نے پھر اپنی اسی بات کو دہرایا۔ اب کے بار نمبر دار نے رام پرکاش، اور اس کے بیٹے آکاش کی طرف دیکھا اور پوچھا ہاں بھئی اب تم لوگوں کا کیا خیال ہے۔ آکاش جو کہ بھاگاں کی محبت میں پگھل چکا تھا اس نے بغیر سوچے سمجھے فیصلہ سنایا کہ وہ مسلمان ہونے کے لئے تیار ہے ۔ پوری محفل میں جیسے کوئی بم پھٹا ہو چہ مگوئیاں ہونے لگیں طرح طرح کی باتیں ہونے لگیں۔ سردار کے گھوڑے کو گھاس ڈالتے ہوئے فضلو کامے کے ہاتھ رک گئے۔ بشکو جو کہ سردار کا سر دبا رہا تھا اس نے اپنا سر پکڑ لیا۔ گویا پوری بستی کے لئے آج ایک انہونا واقعہ تھا جو وقوع پذیر ہو رہا تھا۔ اسی دوران شیدے بھٹی کی ایک بار پھر آواز گونجی کہ میں نے صرف آکاش کو مسلمان ہونے کا نہیں کہا بلکہ ساتھ اس کے باپو کا بھی کہا ہے ۔ محفل میں ایک بار پھر ہو کا عالم چھا گیا۔ سب نگاہیں رام پرکاش کی طرف اٹھ گئیں۔ رام پرکاش جو کہ ایک جنونی مذہبی تھا۔ اس سے اپنا مذہب چھوڑنے کا گمان تک بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اپنی طرف سے شیدے نے ایک ایسی شرط عائد کر دی تھی جس کا پورا ہونا نہ صرف مشکل بلکہ نا ممکن تھا۔ اسے معلوم تھا باپ کبھی بھی مسلمان نہیں ہوگا لہذا نمبر دار مجبور ہو کر دونوں کو بستی چھوڑنے پر مجبور کر دے گا۔ رام پرکاش کسی مخمصے کا شکار ہو چکا تھا۔ اس کے ہونٹ خشک ہو چکے تھے۔ سر چکرا رہا تھا۔ عجیب ہذیانی کیفیت کا شکار ہو چکا تھا۔ ایک طرف اولاد کی محبت دوسری طرف دھرم ، دونوں مضبوط دلیلیں اپنی طرف بلا رہی تھیں۔ نمبردار نے محفل کی خاموشی کو توڑتے ہوئے رام پرکاش کو مخاطب کرتے ہوئے اونچی آواز میں پوچھا جی رام پرکاش کیا کہتے ہو اس بارے میں۔ رام پرکاش کی زبان ساتھ چھوڑ چکی تھی اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا جواب دے ۔ اتنے میں دور سے مسجد سے موذن کی آذان کی آواز سنائی دینے لگی اللہ اکبر، اللہ اکبر، عشاء کی آذان تھی گاؤں میں رات جلدی چھا جاتی ہے۔ بہت اندھیرا ہو چکا تھا۔ گرمیوں کا مہینہ تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔ چوپال میں بندھے جانور گھاس کھا کر بیٹھ چکے تھے۔درختوں میں موجود گھونسلوں سے پرندوں اور ان کے بچوں کی دھیمی دھیمی آوازیں آرہی تھیں جیساکہ وہ انہیں سونے کا حکم دے رہے ہوں ۔ کافی دیر گہری خاموشی کے بعد رام پرکاش کی کانپتی ہوئی آواز گونجی نمبر دار صاحب میں بھی مسلمان ہونے کےلئے تیار ہوں۔ نمبر دار کے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک جذباتی نوجوان نے زور دار آواز میں نعرہ لگایا۔ نعرہ تکبیر۔ اللہ اکبر اہلیانِ محفل آپس میں چہ مگوئیاں کرنے لگے الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔رام پرکاش کے مسلمان ہونے کے اعلان سے نمبردار کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل چکی تھی۔ شیدا بھٹی پہلے تو بہت پریشان ہوا مگر اچانک اس کے چہرے پر بھی تمکنت کااحساس نمو دار ہوا۔ ایک انجانی سی خوشی اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی۔ مگر اس لمحے آکاش کی حالت دیدنی تھیں ۔ مارے خوشی کے اس کا دل بلیوں اچھل رہا تھا۔ پوری محفل میں عجیب طرح کا جوش و جذبہ پایا جاتا تھا۔ البتہ ان سب میں ایک شخص ایسا تھا جس کے چہرے سے مایوسی اور ناامیدی جھلک رہی تھی وہ تھا رمضان۔ اس کو محسوس ہو چکا تھا کہ چونکہ اب رام پرکاش مسلمان ہوچکا ہے لہذا اب وہ یہ علاقہ چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ اور ساتھ ہی حبہ کردہ زمین اور جائیداد بھی واپس لے گا۔ اس لئے حیرت اور مایوسی کے ملے جلے جذبات کے ساتھ وہ اپنے ہاتھ مسل رہا تھا۔ جب کہ اس کے ساتھ آنے والے اس کے ساتھی کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق اپنے ساتھی رمضان کی حالت دیکھ کر دل برداشتہ ہوئے بیٹھے تھے۔ انہیں بھی معلوم ہو چکا تھا کہ اب رمضان کو شاید رام پرکاش کی جائیداد سے ہاتھ دھونے پڑیں گے۔
کافی دیر بعد نمبردار کی آواز نے محفل میں ایک بار پھر جان
ڈالی ۔ نمبردار نے فورا مسجد امام کو حاضر ہونے کا حکم سنایا۔ بیلی دوڑتا ہوا گیا
اور امام صاحب کو ساتھ لے آیا۔ نمبر دار نے امام صاحب کوحکم سنایا کہ رام پرکاش
اور اس کے بیٹے کو فی الفور کلمہ پڑھا کر مسلمان کیا جائے۔ امام صاحب نے سب سے پہلے دونوں باپ بیٹے کو نہا کر صاف
کپڑے پہننے کا کہا ۔ جلد از جلد دونوں باپ بیٹے کو نہلایا گیا۔ بالآخر دونوں بیٹوں
کو امام صاحب نے کلمہ پڑھایا ساتھ میں ایمان مجمل اور ایمان مفصل بھی پڑھائے گئے۔
دونوں باپ بیٹے کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ان کی دیکھا دیکھی باقی محفل بھی اپنے
جذبات پر کنٹرول کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی تھی۔ مگر یہ ایک ایسا جذباتی لمحہ
تھا جو سب کے جذبات کو آنسو ؤں کے سیلاب میں بہائے جا رہا تھا۔ رام پرکاش اور آکاش
سسکیاں بھی لے رہے تھے اور کلمہ طیبہ کا ورد بھی کر رہے تھے۔ ایک بار پھر پور ی
محفل نعرہ تکبیر سے گونج اٹھی ۔ آج گاؤں کی فضاء میں عجیب ترانے محسوس کیے جارہے
تھے۔ حتیٰ کہ نمبردار صاحب بھی جو کہ چٹان کا حوصلہ رکھتے تھے فرط جذبات میں آنسو
بہارہے تھے۔ اتنی دیر میں ایک بیلی گاؤں کی دکان سے پھلیاں اور لاچی دانوں (دیہات
میں ملنے والی میٹھی چیزیں) سے جھولی بھر
لا یا تھا سب کا منہ میٹھا کروایا گیا۔ اب رام پرکاش کااسلامی نام اللہ بخش دیندار
رکھا گیا جب کہ اس کے بیٹے کا نام عثمان رکھا گیا۔ کافی دیر تک مبارک ہو مبارک کی صدائیں گونجتی رہیں ۔ آخر کار
نمبر دار نے شیدے بھٹی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ کیوں بھئی شیدے اب تو تمھارا
مطالبہ پورا ہو چکا۔ اب تم کیا کہتے ہو۔ شیدے بھٹی نے دست بستہ عرض کی جو حضور کی مرضی اب آپ ہی فیصلہ
سنا دیں ۔ جو آپ کا حکم ہوگا میرے سر آنکھوں پر ۔ نمبر دار نے اعلان کیا کہ آج بدھ
وار ہے لہذا جمعتہ المبارک کے دن ٹھیک
جمعہ نماز کے بعد عثمان اور بھاگاں کا نکاح کیا جائے گا۔ اور ساتھ ہی نمبردار نے
رمضان سے کہا اب تمھیں اللہ بخش دیندار کو
اس کی طرف سے کروایا گیا زمین اور مکان
وغیرہ کا حبہ ختم کروانا ہوگا۔ چونکہ دونوں باپ بیٹا مسلمان ہو چکے ہیں لہذا ان کی
جان مال کی حفاظت اب ہماری ذمہ داری ہے۔ رمضان جو کہ پہلے ہی تلما رہا تھا نہ چاہتے
ہوئے بھی ہاں میں سر ہلایا اور محفل سے اٹھ کر چلا گیا۔ انہیں جھمیلوں میں آدھی
رات تقریبا گزر چکی تھی۔ نمبردار نے سب لوگوں کو گھر واپس جانے کا کہا۔ اور بیلیوں
کو حویلی اور چوپال کے کواڑ بند کرنے کا کہا اور خود اٹھ کے حویلی کے اند ر چلا
گیا۔ادھر باپ بیٹے کی دنیا تبدیل ہو چکی تھی۔ بیٹے کے عشق مجازی نے دونوں کو رب سے
جوڑ دیا تھا۔ شاید ان کی تقدیر میں یہی لکھا تھا۔ گھر تو پہنچ گئے مگر نیند اب دونوں کی آنکھوں سے فرار ہو چکی
تھی۔ ساری رات کروٹیں بدلتے اور عجیب احساس کے ساتھ گزار دی اسی اثناء میں موذن کی
آواز گونجی جو صبح کی آذان دے رہا تھا دونوں باپ بیٹا مسجد نماز پڑھنے کے لئے اٹھ
کھڑ ے ہوئے ۔
اگلے دن پورے گاؤں میں جنگل میں آگ کی طرح خبر پھیل چکی تھی۔ حتیٰ کہ پڑوس کے گاؤں میں بھی خبر چلی گئی تھی۔ سارا دن لوگ اللہ بخش دیندار اور عثمان کو مبارک بادیں دینے کے لئے آتے رہے۔ اور گاؤں کے رواج کے مطابق تحفے تحائف بھی ساتھ لاتے رہے۔ گاؤں کے امام صاحب بھی تشریف لائے جو کہ دونوں باپ بیٹے کو اسلام کے بنیادی عقائد اور دعائیں اور نماز پڑھنے کا طریقہ سکھانے آئے تھے ۔ الغرض جمعہ تک دونوں باپ بیٹوں نے انتہائی مصروفیت کے دن گزارے۔ بالآخر جمعہ کا مبارک دن آ پہنچا ۔ عثمان جو کہ اسی اثناء میں شہر سے کپڑے جوتے وغیرہ لے آیا تھا وہ بھی تیار ہو کر انتظار کی گھڑیاں گن رہا تھا۔ جبکہ دوسری طرف بھاگاں کی حالت بھی دیدنی تھی۔ ایک لمحہ ایک صدی کی طرح بیت رہا تھا۔ آخر کار وہ وقت بھی آ پہنچا جس کا دو دلوں کو شدت سے انتظار تھا۔ نمبردار کی معیت میں عثمان اپنے باپ اور دوستوں کو لے کر شیدے کے گھر پہنچ گیا۔ وہاں ان کی ٹھنڈی میٹھی لسی سے استقبال کیا گیا۔ شیشم کے درختوں کے نیچے چارپائیاں لگا دی گئی تھیں۔ ساتھ ہی پانی کا کنواں تھا جس پر سے بیل رہٹ کے ذریعے پانی کھینچ رہے تھے۔ اور پانی کھال کے راستے فصلوں کی طرف جا رہا تھا۔ آموں کا موسم تقریبا ڈھلتا دکھائی دے رہا تھا ۔ اکا دکا آم درختوں پر دکھائی دے رہے تھے۔ کھجور کے درختوں پر کھجوریں آدھی سے زیادہ چن لی گئی تھیں۔ مون سون کا موسم اپنے جوبن پر تھا۔ آسمان پر نیلے اودے بادلوں کی اوٹ میں سورج آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ پرندے درختوں پر چہچہا رہے تھے۔ اتنے میں چارپائیوں پر بیٹھے مولوی صاحب کی آواز بلند ہوئی ۔ شیدے بھٹی کی بیٹی بھاگاں مائی بعوض حق المہر شرعی دو سو روپے نقد تمھیں قبول ہے۔ فرط جذبات میں بھرے عثمان کی لڑکھڑاتی زبان سے آواز آئی قبول ہے ۔ ایک بار پھر یہی جملہ دہرایا گیا۔ اور جواب قبول ہے ۔ تین بار قبول ہے کے بعد مبارک ہو مبارک ہو کی آوازیں سنائی دینے لگیں جبکہ عثمان دنیا و مافیہاسے بے خبر سوچوں کے محلوں میں نئی زندگی کے خواب دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔ مٹھائی بانٹی گئی۔ مہمانوں کی تواضع کے لئے گاؤں کے نائی نے دیگوں میں چاول ، دلیہ ، اور گوشت تیار کر لیا تھا۔ جو کہ سب کو پیش کیا گیا۔ کھانا دینے سے پہلے شیدے بھٹی نے سب کا شکریہ ادا کیا اور کہنے لگا میری بیٹی کتنی خوش نصیب ہے جس کی وجہ سے دو غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا ہے۔ نہ صرف اسلام قبول کیا ہے بلکہ اپنے ملک اور خاندان کو بھی چھوڑ دیا ہے۔شام کے وقت رخصتی کی تقریب عمل میں لائی گئ۔ عثمان اپنی محبت بھاگاں کو لے کر اپنے گھر واپس پہنچا۔ اور پھر اسی طرح میاں بیوی ہنسی خوشی اپنے گھر آباد ہوگئے ۔انسان کی سوچ کچھ ہوتی ہے مگر رب کے یہاں فیصلے کچھ اور ہوتے ہیں ۔ انسان امیدوں کے خواہشوں کے بہت سارے جال بن لیتا ہے مگر تقدیر کا ایک شعلہ پورےجال کو اپنی لپیٹ میں لے کر پل بھر میں خاک بنا دیتا ہے ۔
عثمان کے ساتھ بھی یہی ہوا ٹھیک ایک سال بعد اس کے مجازی خدا نے اسے الوداع کہا اور راہی ملک عد م ہوا۔ عثمان صدمے سے بے حال تھا۔ اس کے سر پر چھت گر پڑی تھی۔ اس کو اپنی دنیا ویران اور اداس دکھائی دے رہی تھی۔ بھاگاں نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی اسے دلاسہ دیا سہارا دیا۔ وقت بڑے بڑے زخموں کو بھر دیتا ہے مگر زخموں کی تکلیف کا احساس باقی رہتا ہے جو مرتے دم تک ختم نہیں ہوتا۔ عثمان کی بدقسمتی ابھی والد کے صدمے سے نکلنے کی کوشش میں تھا کہ ایک دن بھاگاں جو کھیتوں میں کام کر رہی تھی کو سانپ نے ڈس لیا ۔ بڑی بھاگ دوڑ کی گئی گاؤں کے حکیموں کو بلایا گیا۔ مگر بے چاری جانبر نہ ہو سکی اور وہ بھی عثمان کو روتا تڑپتا چھوڑ کر اللہ میاں کے پاس چلی گئی۔ اب عثمان کی حالت ایسی تھی جیسے کسی ململ کے کپڑے کو کانٹوں پر ڈال کر زور سے کھینچا جائے اور وہ جگہ جگہ سے پھٹ جائے۔ نیم پاگل سا ہو چکا تھا۔ لوگوں نے بہت دلاسے دیے بہت سمجھایا مگر عثمان کا جگر زخمی ہو چکا تھا۔ دل چھلنی ہو چکا تھا۔ انتہائی بے چینی اور بے قراری میں کافی دن گزر گئے۔ گاؤں کے امام صاحب روز عثمان کو حوصلہ دینے جاتے رہے۔ بالآخر کافی عرصے بعد عثمان کو صبر آنا شروع ہوا اب اس کو مسجد کے ساتھ دلی لگاؤ شروع ہو گیا۔ اس کا زیادہ وقت مسجد میں گزرتا تھا۔ اپنے باپ سے ملنے والی زیادہ تر زمینیں اس نے بیچنا شروع کر دی تھیں۔ گاؤں کے بچوں کے ساتھ اسے خصوصی دلی لگاؤ تھا۔ جب بھی کوئی بچہ اسے ملتا اس کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتا اور اپنی جیب سے ٹافیاں نکال کر بچوں کو دیتا تھا۔ گاؤں کے سارے بچے اس سے مانوس ہو چکے تھے۔ اور اکثر اوقات گلی میں اس کے آنے کا انتظار کرتے رہتے تھے۔ اسی طرح زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں تھی۔ عثمان نے تنہائی کے عالم میں تیس سال گزار دیئے تھے۔ بالآخر ایک دن چاچا رسولا ان کی وفات کی خبر لے کر ہمارے گھر کے باہر موجود تھا۔ عثمان کی وفات سے پورا گاؤں سوگوار تھا۔ بچے بوڑھے سب اشک بہارہے تھے۔ ایک محبت کرنے والا انسان اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا۔ آہ ایسے راستے پر وہ گامزن ہو چکا تھا جہاں سے اس کی واپسی ناممکن تھی۔ چاچے رسولے کی خبر میرے دل پر بجلی بن کر گری تھی۔ میں خبر سنتے ہی خیالوں میں عثمان کی زندگی کے ادوار اور اس کے دکھوں کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ساتھ ہی میری آنکھ بھی نم ہو چکی تھی۔ پتہ نہیں ایسا کیوں لگ رہا تھا کہ وہ میرا رشتہ دار نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے کسی قریبی رشتہ دار سے بھی زیادہ دل کے قریب محسوس ہور ہا تھا۔ آنسو نے بالآخر ضبط کا بندھن توڑا اور میرے گالوں پر دوڑنے لگے۔
MotasimMalik
26-Aug-2023 07:39 PM
boht achhi. tell about pic who is he
Reply
Khadija aga
26-Aug-2023 10:39 AM
👌⭐,
Reply
anab kazmi
26-Aug-2023 10:06 AM
,👏👏👏👏
Reply